جوانی کے مزے قسط نمبر 13

جوانی کے مزے قسط نمبر 13

میں نے عظمی کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اسکی ٹانگوں کو اپنی ٹانگوں کی مدد سے تھوڑا اوپر کیا عظمی بھی خود کیا تیار کر چکی تھی
اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی میں نے اپنی پوزیشن سیٹ کی اور استاد سے اجازت لی اور لن کو تھوڑا پیچھے کیا اور ایک جاندار گھسہ مار کر لن عظمی کی پھدی کی جڑ تک بچے دانی میں گھسا دیا لن نے پھدی کو چیر کے رکھ دیا تھا پھدی کا ستیاناس ہوچکا تھا اور ہچکیاں لے کر پھدی لن کو بدعائیں دے رھی تھی جبکہ عظمی بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رھی تھی اور اسکے منہ سے بُھمممم بُھمممممم کی آوازیں آرھی تھی آنکھوں سے آنسووں کی برسات جاری تھی اسکے ہونٹ کپکپا رھے تھے ٹانگیں کانپ رھی تھی
لبوں سے تھوک باہر کو نکل کر کپڑے کو گیلا کر رھا تھا میرے سر کے بالوں کو اس نے دبوچ رکھا تھا پھدی کے ہونٹوں سے رت بہہ بہہ کر گھاس کو سرخ کر رھا تھا کچھ دیر مین اسکے اوپر لیٹا اسکو تسلیاں دیتا رھا تقریباً دس منٹ بعد عظمی سنبھلی تو میں نے پھر استاد کا بتایا ھوا گُر آزماتے ھوے اسکے ہونٹ چوسنا شروع کردیے عظمی کافی حد تک سنبھل گئی تھی اور پھر میں نے لن آگے پیچھے کرنا
شروع کردیا لن کافی گیلا ہوچکا تھا اور پھدی کا راستہ بھی کھل چکا تھا میں نے آہستہ آہستہ سپیڈ بڑھانی شروع کردی
عظمی پہلے تو مجھے روکتی رھی اور ھاےےے مرگئی. بولی کر ھولی کر بسسسسس بسسسسس اوئییییی امممییییییی میرے دل نوں کش ھو چلا یاسسرررررر بسسسسسس کررررر مگر کچھ ھی دیر بعد اس کے ڈائلاگ بدل گئے اور موسم خوشگوار ھوا اور اسکی پھدی نے برسات شروع کردی اور عظمی گانڈ اٹھا اتھا کر پورا لن اندر لینے لگ گئی کچھ ھی دیر بعد میرا بھی بولاوا آگیا اور میں نے جلدی سے لن کو باھر نکالا اور عظمی کے پیٹ کی طرف ٹوپا کر کے مٹھ مارنے لگ گیا اور آخر کر لن صاحب نے پہلی الٹی اتنے پریشر سے کی کے عظمی کے ممے اور منہ تک چھینٹے گئیے پھر تین چار مزید الٹیاں کرنے کے بعد لن صاحب سکون میں ھوگئےاور عظمی غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی میرے اُتے ضرور گند مارنا سی میں جلدی سے اٹھا اور مکئی کے پتے توڑ کر اس سے اسکا منہ اور ممے اور پیٹ صاف کرنے لگ گیا عظمی کچھ دیر ھاے اوئی کرتی رھی کبھی اٹھتی کبھی بیٹھتی کبھی رکتی کبھی چلتی اور میں بھی اسکے نخرے اٹھاتا اسکو راستے میں ھی چنگی پلی کر کے اسکے گھر پہنچا آیا ...... شام کو ٹیوشن جانے کے لیے عظمی کے گھر گیا تو آنٹی فوزیہ نے بتایا کو دونوں بہنیں بخار سے تپ رھی ہیں پتا نھی ان دونوں کو ایک ساتھ ھی بخار چڑھنا تھا میں یہ سن کر کمرے کی طرف چل دیا اور آنٹی بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں آگئی نسرین تو سو رھی تھی مگر عظمی چارپائی پر ٹانگیں سیدھی کیے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی تھی
میں جا کر عظمی کے پاس بیٹھ گیا عظمی نے مجھے گھور کر دیکھا میں نے شرارت سے کہا تینوں وی بہانہ لب گیا اے ٹیویشن تو چُھٹی کرن دا تو عظمی غصے دے بولی ایویں پونکی نہ جا میں بخار نہ مرن دئی آں تینوں سواے بکواس کرن دے کُش نئی آندا۔۔۔ تو آنٹی بولی
عظمی ایسے کیوں بکواس کر رھی ھو بھائی ھے تمہارا شرم کرو کیسے اسکے ساتھ بات کررھی ھو تو عظمی بولی اپنے اس لاڈلے کو کہیں کہ میرے ساتھ کوئی فضول بات نہ کیا کرے اور یہ کہتے ھی وہ سیدھی لیٹ گئی اور چادر جو اسکی ٹانگوں پر تھی کھینچ کر منہ پر لے لی
آنٹی بولی پتر دفعہ کر ایس کُتی نوں چل توں آجا بار جا کے بیٹھنے آں میں نے کہا نھی آنٹی جی میں تو ٹویشن جانے لگا تھا سوچا نسرین کا پتہ کرتا چلو تو آنٹی بولی ٹھیک ھے چل جا شاباش میرا پتر دل لا کے پڑیا کر اور میں سر ہلاتا ھوا گھر سے نکل کر صدف کے گھر کی طرف چل پڑا گھر میں داخل ھوا تو صدف کرسی پر بیٹھی پانچ چھ چھوٹے چھوٹے چھ سات سال کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھی
اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور پھر مجھے اکیلا دیکھ کر میرے پیچھے بھی نظر دوڑائی اور پھر مجھے نظر انداز کر کے منہ بچوں کی طرف کر لیا میں تو یہ سوچ رھا تھا کہ صدف مجھے اکیلے کو دیکھ کر خوش ھوگی مگر اس سالی نے تو مجھے گھاس بھی نہ ڈالی میں نے جاکر سلام کیا اور ذرہ ذوررررر دے کر باججججججی کہا تو صدف نے چونک کر میری طرف دیکھا اور گھورنے لگ گئی اور پھر ادھر ادھر دیکھا کہ آنٹی تو نھی اور پھر میری طرف ھاتھ کا پنجہ کرتے ھوے آہستہ سے بولی لکھ دی لس لانت تیری شکل تے میں نے بھی چاروں طرف دیکھا کہ کوئی ھے تو نھی تو میں نے اسکے قریب بیٹھتے ھوے کہا کیا ھوا باجی تو صدف کا رنگ جو پہلے ھی تھوڑا سا گندمی تھا مزید گہرا ھوتا گیا اور پھر آہستہ سے بولی بکواس بند کر تو میں نیچے سر کر کے ہنسنے لگ گیا اور اپنا بیگ کھول کر کتاب باہر نکالی اور گود میں رکھ کر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد صدف نے مجھ سے پوچھا عظمی نسرین کیوں نھی آئیں تو میں نے کہا چھوٹے بچوں کے انداز میں معصوم سا، منہ بنا کے کہا باججججیییی ۔۔۔وہ دونوں بیمار ہیں اور انکی امی نے کہا تھا کہ اپنی باجججیییی کو بتا دینا کہ وہ آج چھٹی کریں گی تو صدف نے پیر آگے کیا اور جوتے کی نوک میرے گھٹنے پر مارتے ھوے بولی تیرییی بکواس بند ھونی اے کہ نئی میں نے پھر اسی انداز میں سارے جہاں کی معصومیت اپنے چہر ے پر لاتے ھوے کہا باججیییی آپ نے خود ھی تو پوچھا تھا تو صدف نے ہاتھ میں پکڑی ھوئی کتاب میرے منہ پر ماری جو میں نے ھاتھ آگے کر کے منہ کو بچا لیا اور غصے سے اٹھی اور مجھے منہ ھی منہ میں گالیاں دیتی پیر پٹختی اندر کمرے کی طرف چلی گئی میں ہنستا ھوا اسے جاتا دیکھتا رھا ۔۔۔ میں نے اسکے اگنور کرنے کا بدلہ باجی کہہ کر لے لیا تھا ۔۔۔ کچھ دیر بعد صدف پھر کمرے سے نکلی اور برآمدے میں ھی کھڑی ھوکر بولی امی آج پکانا کچھ نھی ھے تو اسکی امی کی دوسرے کمرے سے آواز آئی
کہ پُتر کسے بچے نوں پیج کے ہانڈی واسطے کُش منگوا لے میرے کولوں نئی جایا جانا،،، تو صدف بولی امی بچوں کو کیا پتہ کہ کون سی چیز سہی ھے اور کون سے خراب آپ خود چلی جاو سیمے کی دکان بھی دوسرے چوک میں ھے اور بچے اتنی دور کیسے جائیں گے انہوں نے راستے میں ھی کھلینے لگ جانا ھے تو بس پک گئی ہانڈی پھر،،، تو آنٹی پھر بولی پُتر یاسر آگیا اے تے اونوں پیج دے او کیڑا بچہ اے اونوں کہ اپنے چاچے دا سائکل لے جاے، صدف جنجھلا کر بولی اس نے پیپر کی تیاری کرنی ھے پہلے ھی اسکو سبق یاد نھی آیا بھی لیٹ ھے صبح اس نے پیپر دینا ھے،،، ۔۔۔ میں صدف کی بات سن کر ہکا بکا رھ گیا کہ میرا کیڑا پیپر اے کل تے کیڑا سبق یاد نئی مینوں. آنٹی آہستہ آہستہ چلتی کمرے سے باہر نکلی اور بولی اک تے میرے گوڈے کم نئی کردے اُتوں اینی دور ٹُر کے جانا پیندا اے، میں دوپیرے تینوں کیا وی سی کے ریڑھی والے کولوں سبزی لے لے پر توں میری مَنیں تے فیر ناں، تو صدف بولی اچھا کل سے لے لیا کروں گی آج تو لے آئیں پھر رات کو ابو بولیں گے کہ کچھ پکایا نھی ۔۔۔ تو آنٹی بولی لا دے پیسے تو صدف نے ہاتھ میں پکڑے پیسے آنٹی کو پکڑا دیے اور آنٹی پاوں رینگتی باہر کو چلی گئی مجھے صدف پر غصہ بہت آیا کہ کیسے وہ جھوٹ بول رھی تھی اور بوڑھی ماں کو اس حال میں اتنی دور بھیج رھی تھی،،، ۔ آنٹی کے جانے کے بعد صدف بیرونی دروازے کی طرف گئی اور
باہر گلی میں جھانک کر دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا دی اور آکر ہمارے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی تھوڑی دیر بعد صدف نے مجھے اونچی آواز میں کہا یاسر کمرے میں جاو اور جاکر پیٹی کے اوپر کھڑے ہوکر چھت سے جالے اتار دو اور نیچے کچھ سامان پڑا ھے اسکو بھی اوپر رکھ دینا میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور اسے پھر چھیڑتے ھوے اونچی آواز میں کہا اچھا باجییییی اور جلدی سے اٹھ کر
کمرے کی طرف چلدیا میں کمرے کی طرف جاتے سوچ رھا تھا کہ سالی کا کیا دماغ ھے کیسی فلم چلائی ھے اس نے ماں کو بھی بیوقوف بنا دیا پھر سوچا کہ تم آم کھاو بس گُھٹلیاں مت گنو میں کمرے میں جاکر چارپائی پر جاکر بیٹھ گیا مجھے سب سمجھ آگئی تھی کہ کہاں سے جالا اتارنا ھے اور کون سا سامان اٹھا کر اوپر رکھنا ھے کچھ ھی دیر بعد دروازے سے صدف اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کرکے کُنڈی لگا دی اور دونوں ہاتھ آگے کر کے دوڑی میری طرف آئی میں سمجھا شاید جپھی ڈالنے کے لیے ایسے ہاتھ کھولے باہیں میری طرف کر کے آرھی ھی ابھی میں سوچ ھی رھا تھا کہ سالی نے آتے ھی دونوں ھاتھ میرے گلے پر رکھے اور گلا دباتے ھوے مجھے پیچھے دھکیل کر چارپائی پر لٹا کر خود میرے اوپر آگئی میں اس کے اچانک اس حملے سے بےخبر تھا اس لیے اسکے تھوڑے سے زور سے میں پیچھے گر گیا اور صدف غصے سے بولی میں تیرا گلآ کُٹ دینا اے اسکا سارا وزن میرے گلے پر ھی تھا تو میرا تو سانس رکنے والا ھوگیا تھا میری آواز نھی نکل رھی تھی اور کچھ دیر ایسے ھی میرا گلا دبا رہتا تو واقعی میرا سانس بند ہو جانا تھا میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکی کلائیاں پکڑی اور پورے زور سے اسے جھٹکا دیا اور اپنا گلا اسکے ہاتھوں سے آزاد کروا لیا اور زور زور سے کھانسنے لگ گیا صدف میرے پیٹ کے اوپر چڑھ کر دونوں ٹانگیں میرے اردگرد کیے بیٹھی ھوئی تھی صدف نے جب میری یہ حالت دیکھی تو وہ بھی گبھرا گئی اور میرا منہ پکڑا کر میری گالوں پر تھپکیاں دیتے ھوے بولی یاسر یاسر کیا ھوا ذیادہ گلا دبایا گیا میں نے غصے سے اسکا ھاتھ جھٹک دیا
میری آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ھوگیا تھا صدف کا منہ بھی رونے والا بن گیا تھا میں نے اسے اپنے اوپر سے دھکا دیتے ھوے کہا اترو نیچے چھوڑو مجھے تو صدف نے میرے دونوں ھاتھ پکڑ کر چارپائی کے ساتھ لگا دیے اور پورا زور لگا کر دبا دیے جیسے زبردستی میری عزت لوٹنے لگی ھو اور صدف بولی تم نے مجھے غصہ کیوں دلایامیں نے کہا مجھے نھی تم سے بات کرنی چھوڑو مجھےاگر میں چاھتا تو ایک ھی جھٹکے سے اس کو چارپائی سے نیچے پھینک سکتا تھامگر صدف کی پھدی مارنے کا موقع ھاتھ سے نکل جانا تھا اس لیے میں ڈرامے کر رھا تھاتو صدف بولی نھی چھوڑناکر لو جو کرنا ھے ،، ایک تو مجھے تنگ کرتے ھو الٹا مجھ پر رعب جھاڑتے ھو میں نے کہا میں نے کیا تنگ کیا ھے تو صدف بولی تمہیں شرم نھی آتی مجھے باجی کہتے تو میں نے کہا اب کیا سب کے سامنے تمہیں صدف ڈارلنگ کہوں
تو صدف بولی میں نے ایسا کب کہا ھے مگر تم جس انداز سے مجھے چڑا رھے تھے میں سب سمجھتی ھوں ۔۔ تو میں نے کہا اب اتر بھی جاو نیچے کیوں بچے کی جان لینی ھے تو صدف بولی آہو بچہ تے دیکھو اس بچے نے مجھے ایک ھفتہ چارپائی سے نھی اٹھنے دیا آج تم سے بچو سارے حساب کتاب چکتا کرنے ہیں تیار ہو جاو تو میں نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ھوے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ھوے کہا
عالی جا معاف کردو آئیندہ غلطی نھی ھوگی میرا منہ دیکھ کر صدف کی ہنسی نکل گئی اور میری گال پر چُٹکی کاٹ کر بولی تجھے کچا کھا جاوں گی میں نے کہا عالی جا آپ کے قبضہ میں ہوں کچا کھا لو یا پکا کہ کھالو جیسے آپ کو بہتر لگے تو صدگ ہنستے ھوے بولی شکل دیکھ پیلے اپنی
آیا وڈا مغل اعظم دی اولاد تو میں نے صدف کو اوپر سے نیچے اتارنے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نھی ھو رھی تھی میں نے اسکی بغلوں میں گد گدی کرنی شروع کردی تو صدف ہنستے ھوے دُھری ھوتی میرے اوپر لیٹنے لگ گئی اور میں نے اسے جپھی ڈال کر چارپائی پر سیدھا کر کے لٹا دیا اور اسکے ساتھ لیٹ کر اسکے ہونٹوں پر پاریاں کرنے لگ گیا اور ایک ھاتھ سے اسکے ممے کو پکڑ کر دبانےﺍﯾﺴﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺟﻮ ﺧﻔﯿﮧ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﯽ ﺁﮒ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﺭﺍﺯﺩﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻮ ﺑﻼ ﺟﺠﻬﮏ WhatsApp ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺭﺍﺯﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﮔﺮﺍﻧﭩﯽ ﮨﮯ
ﺻﺮﻑ ﭘﯿﺎﺳﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ
WhatsApp number 
+923215369690

Post a Comment

0 Comments

Comments